Ahmed Alvi

Add To collaction

25-Sep-2022 احمد علوی طنزو مزاح کا ایک خوش فکر شاعر

احمد علوی ایک خوش فکر طنزو مزاح نگار

نوید ظفر کیانی ( پاکستان)

احمد علوی کے نام پر از خود ایک ایسے بچے کا تصور ابھرتا ہے جس کی شربتی آنکھوں میں شوخی اور الہڑ پن لشکارے مار رہا ہے. اس کے ہاتھوں میں بہت سی پھلجھڑیاں ہیں جسے وہ زمانے کی بسیط ظلمت میں لیکر نکلا ہے. اس کی پھلجھڑیوں سے رنگ برنگے شرارے پھوٹ رہے ہیں. وہ زمانے کے ملگجے اندھیرے میں طرارے بھرتا پھر رہا ہے. جہاں جہاں جاتا ہے گوں نا گوں قسم کی روشنیوں کے ننھے ستارے بکھیرتا چلا جاتا ہے. بہت سے لوگ قلانچے بھرتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہیں. وہ سب لوگ ان رنگ برنگی روشنیوں کے ستارے چن رہے ہیں اور شوخی سے قلقاریاں مار رہے ہیں. ہر طرف موج میلا ہے اور اس موج میلے کا مرکزی کردار احمد علوی ہے.....
احمد علوی نام کا شوخ و شنگ بچہ محض سرمستی اور الہڑ پن سے دوڑتا نہیں پھرتا بلکہ بسا اوقات اس کے انداز میں شوخی اور شرارت بھی عود کر آتی ہے. جب کبھی بھی زمانے کے بد صورت اور تاریک چہروں والے بھوتوں پر اس کی نظر پڑتی ہے تو وہ اپنی رنگ برنگی روشنیوں والی پھلجھڑی سونت کر ان پر جھپٹ پڑتا ہے.
بھوت روشنیوں کی یلغار سے خوفزدہ ہوکر الٹے قدموں پیچھے پلٹتے ہیں اور دوڑ لگا دیتے ہیں. بچہ تاریکی کے بھوتوں کو بھاگتا ہوا دیکھتا ہے تو کھلکھلا اٹھتا ہے.
اس کی مترنم کھلکھلاہٹوں کی لے پر پھلجھڑیوں کے رنگ برنگی روشنیوں والے ستارے رقص کرنے لگتے ہیں. اور ایسا سماں بندھ جاتا ہے. کہ چاند بھی بادلوں کا لحاف ہٹا کر بڑی دلچسپی سے یہ تماشہ دیکھنے لگتا ہے.
آپ میری اس خیال آرائی کو محض Fantasy سمجھ سکتے ہیں لیکن یقین کیجئے کہ میں پوری ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ وہ ظرافت نگار جو مستقل اپنے چلبلے فن کی شمع جلائے ہوئے ہیں، مستقل اس طلسم ہوش ربا کا حصہ ہیں اور احمد علوی انہیں میں سے ایک ہیں.
احمد علوی ایک ایسا خوش فکر شاعر ہے جو اپنے انداز فکر کی لطافت سے ایسی انبساط آگیں کیفیت پیدا کر دیتا ہے جو پڑھنے والوں کی توجہ کو مقناطیس کی مانند کھینچتی ہے. ان کے ہاں زبان و بیان کے ساتھ ساتھ انداز بیان میں بھی ندرت موجود ہے.
وہ جس موضوع سخن کا انتخاب کرتے ہیں اس سے پورا انصاف کرتے ہیں. وہ بڑی سنجیدگی اور تواتر کے ساتھ ادب لطیفہ کی تخلیق میں مشغول ہیں.
ان کی نظموں اور غزلوں کے موضوعات میں سنجیدگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے. مزاح گو شاعر اور سنجیدگی، یہ بات بعید از قیاس لگتی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ کسی متین بلکہ سنگین موضوع پر خامہ فرسائی کرنا اور اپنے انداز بیان سے اسے رنگین بنا دینا ایک فن ہے جو ہر کسی کا بودہ نہیں.
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے انداز بیان کی شعوری و غیر شعوری شرارتوں سے کاوشوں میں موجود فکاہی عنصر پڑھنے والوں پر چھاتا بردار فوج کی طرح حملہ آور ہوتا ہے اور سے مطالعے کے بعد بھی ہنڈز اپ کئے رہتا ہے. ذرا اس قطعے میں دیکھئے کہ وہ کس معصومیت، سادگی اور روانی سے کیسی کیسی پھلجھڑیاں چھوڑے جاتے ہیں.

لندن کو اڑ گئے وہ ہنی مون کے لئے
میں لڑکیوں کو شعر سنانے میں رہ گیا
وہ خوش نصیب نسل بڑھانے میں لگ گیا
میں بد نصیب بچے کھانے میں رہ گیا

الفاظ میں سلاست اور روانی ایسی ہے کہ پڑھنے والا بہے چلا جاتا ہے. تاہم اس کے ساتھ ساتھ انداز بیان کی سادگی اس کی ریڈر شپ کے اسکوپ کو خاصا متنوع بنا دیتی ہے. جیسے بعض کتابوں پر لکھا ہوتا ہے " چھ سے ساٹھ سال کے بچوں کے لئے"
ان کے یہاں مزاح خالصا آمد کا شاخسانہ ہے. ان کی باغ و بہار شخصیت کی برجستگی اور شستگی ان کے فنی محاسن کی از خود آبیاری کرتی ہے. تاہم یہ آمد بھی درد مندی اور آگہی کے مسلسل ریاض کا پیش خیمہ ہوتی ہے. موجودہ دور کی علاقائی سیاست اور سماجی پس منظر مزاح گو شاعر کو ہجو اور استہزا کی جانب راغب کر تا ہے. لیکن احمد علوی اس باب میں بھی فکری توازن برقرار رکھتا ہے. اگرچہ بسا اوقات ان کا لہجہ خاصا تلخ اور کھردرا بھی ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی ان کی شخصیت کا ایک مثبت پہلو ہے کہ وہ اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے قائل نہیں ہیں بادشاہ کی طرف ترت انگشت نمائی کر دیتا ہے کہ " بادشاہ سلامت آپ ننگے ہیں".
وہ بہت بڑی بہادری اور جانفروشی سے معاشرے کے ان منفی عناصر کو للکارتے ہیں جن پر ہاتھ ڈالنا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے. اس موقع پر احمد علوی اپنے قلم کو آتش فشاں کے بہتے ہوئے لاوے میں ڈبو لیتا ہے.

سرخ گجرات میں کیسر کی ہے رنگت یارو
کتنی مکروہ ہے ووٹوں کی سیاست یارو
یہ ہنر آتا ہے اپنے وطن میں مودی کو
کس طرح ہوتی ہے لاشوں پہ حکومت یارو

چھوڑ چھوڑ دے بڑ بولا پن
کچھ رکھا کر زبان پر قابو
کیا مصلہ بچھاؤں تیرے لئے
ایک رقعت کا بھی نہیں ہے تو

راج ٹھاکرے

کچھ سمجھ ہے تو دھوکے میں مت آیئے
یہ نہ ہندو کے ہیں نہ مسلماں کے ہیں
باپ کو اپنے یہ باپ کہتے نہیں
یہ وفادار بس کرسی اماں کے ہیں

یہ وہ احمد علوی ہے جو سماجی بھوتوں پر با آواز بلند "لاحول" بچے پڑھتا ہے لیکن پن ڈرائیو میں ایک ایسا احمد علوی بھی دکھائی دیتا ہے جو بذلہ سنجی اور شوخ بیانی میں فرد ہے. باتوں باتوں میں ایسی دلچسپ بات کہہ جانے والا احمد علوی کہ سننے والا پھڑک اٹھے.
جب پڑوسن سے لڑ گئیں انکھیاں
کالا اک اک بال کر بیٹھے

پڑھے لکھے تو راکٹوں کے تجربے کیا کئے
پہنچ گئے ہیں چاند پر لڈن میاں جگاڑ سے

باب کٹ زلفیں کٹا لی ہیں مرے محبوب نے
کیسے شانوں پر لکھوں زلفیں پریشاں ہو گئیں

سو کوششوں سے آئے تھے چندیا پہ چار بال
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

دوسرے طنزو مزاح نگاروں کی طرح طنزیہ انداز بیان بھی احمد علوی کا امتیازی وصف ہے. حقیقت یہی ہے کہ جس مزاح نگار میں ان بلٹ( built) طنز کے ڈنک نہ ہوں وہ یا تو بے مقصد مزاح نگار ہے یا پھر وہ اپنے شعری وجدان میں درست سمت میں سفر نہیں کر رہا ہے. ایک شاعر اپنے زمانے کے تمام مسائل اور دکھوں کو ساتھ لیکر چلتا ہے. اس کی شاعری ہر قسم کے تلخانہ شیرنی سے ناکوں ناک ہوتی ہے. تاہم ایک اچھا وہی ہے جو کسی معاشرے کی نا ہمواری پر اس نیت سے نشتر آزمائی کرتا ہے کہ اس کے ناسوروں کا علاج کر سکے. احمد علوی کا شعری اسلوب بھی طنز کے انداز احتجاج سے مزین ہے وہ اپنی شاعری میں جگہ جگہ ناوک فگن نظر آتے ہیں.

ڈاکٹریٹ کی ڈگری لیکر اردو سر ہیں کالج میں
غالب گاف سے پڑھنے والے لیکچرر ہیں کالج میں

اس کی قسمت بدل نہیں سکتی
ہاتھ میں ٹھیکرا ہی رہتا ہے
چاہے بن جائے وہ کروڑی مل
بھک منگا بھک منگا ہی رہتا ہے

وہ کانوینٹ گرل ہے کافی پڑھی لکھی
روداد حسب و نسب کی آب انسٹینٹ بھیج
رشتہ بنے گا بینک کا بیلنس دیکھ کر
تصویر نہیں بینک کا اسٹیٹ مینٹ بھیج

اور اب ذرا امریکی صدر بارک اوبامہ کو امن کا نوبل انعام ملنے پر ان کا یہی قطعہ ملاحظہ ہو.

سوچتا ہوں امن کا کیسے فرشتہ بن گیا
جس کا کلچر ہی ہمیشہ سے رہا بندوق کا
امن کا نوبل پرائز مل گیا کیسے اسے
قتل گردن پر ہے جس کی ان گنت مخلوق کا

احمد علوی کی شاعری میں جس صنف سخن کی مقدار سب سے زیادہ ہے. وہ ہیں ان کے قطعات اس فن میں انہیں خصوصی تخصیص حاصل ہے. قطعہ نگاری کا سب سے بڑا حسن اس کی حقیقت نگاری ہے. شاعر کسی بھی واقعے کو بنیاد بنا کر چار مصرعوں پر مشتمل ایک خیال کو یکجا کرتا ہے. احمد علوی کے قطعات میں شگفتگی دلکشی اور نازکی پائی جاتی ہے. ان کے بعض قطعات ایسے بھی ہیں جن میں ان کے انداز بیان نے آفاقیت بھر کر رکھ دی.
اس قطعے کی کاٹ ملاحظہ کیجئے.

جتنے آل انڈیے ہیں ڈائس پر
سیڑھیاں شہرتوں کی چڑھتے ہیں
ان کا استاد ہی نہیں کوئی
شعر سارے چرا کے پڑھتے ہیں

ان کے قطعات میں طنز کی ترشی لبالب بھری ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ شگفتگی کی ایک دبیز چادر بھی اس پر پڑی ہوتی ہے. جس سے پڑھنے والے بہت حظ لیتے ہیں.

پیروڈی لفظ پیروڈیا سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں جوابی نغمہ اس سے مراد ایسی ادبی طرز تخلیق جس میں کسی نظم یا نثر کی اس طرح نقل کرکے مزاح کا رنگ پیدا کیا جاتا ہے کہ پیروڈی کا لفظی و بحری اہتمام جوں کا توں رہے تھوڑے سے الفاظ کے پھیر بدل سے مضمون میں ایسی مضحکہ خیزی پیدا کرنا جس سے نفس مضمون کی ایسی تیسی ہوکر رہ جائے. احمد علوی کو پیروڈی میں ید طولیٰ حاصل ہے. احمد علوی کی پیروڈی میں یہی خاص بات ہے کہ وہ کسی فن پارے کی پیروڈی کرتے وقت پیروڈی کے جملہ لوازمات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں. جس سے ان کی پیروڈی پڑھنے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے. ان شاعری میں آپ کو بہت سی پیروڈیاں پڑھنے کو ملیں گی. بھارت کا ایک مشہور فلمی گانا جب ان کی فکر رسا کے ہتھے چڑھا تو اس کا کیا حشر ہوا ملاحظہ فرمائیے.

چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
اچھی طرح سکا ہوا شامی کباب ہو

آنکھیں ہیں جیسے چہرے پہ قبریں کھدی ہوئی
زلفیں ہیں جیسے راہوں میں جھاڑی اگی ہوئی
جان بہار تم تو کباڑی کا خواب ہو
چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو

ایسا نہیں کہ مرتے ہیں بس تم پہ نوجواں
آہیں تمہارے عشق میں بھرتے بڑے میاں
بدبو ہے جس میں شوز کی تم وہ جراب ہو
چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو

ایک اور فلمی نغمے کی پیروڈی ملاحظہ کریں.

آپ کی نظروں نے سمجھا ووٹ کے قابل مجھے
ڈاکوؤں اور رہزنوں کر دیا شامل مجھے

ماشاءاللہ آج تو تعلیم کا میں ہوں وزیر
کم سے کم اب تو نہ کہئیے ان پڑھ و جاہل مجھے 

توڑ دی ہیں میری ٹانگیں اس کے ابا جان نے 
اب بھی محبوبہ سمجھتی ہے مری کامل مجھے 

پھر تو کر سکتا ہوں میں بھی چار سے چھ شادیاں 
ساتھ میں بیوی کے مل جائیں اگر دو مل مجھے 

اس طرح ساحر لدھیانوی کی ایک معروف نظم کی پیروڈی بھی خاصے کی چیز ہے اس پیروڈی میں ان کا جارحانہ رنگ بقول ایک پنجابی محاورے بلیاں دے دے کر جھلکیاں مار رہا ہے. 

یہ کھٹمل یہ مکھی یہ مچھر کی دنیا 
یہ لنگور بھالو یہ بندر کی دنیا 
یہ کتوں گدھوں اور خچر کی دنیا 
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے 

یہ عورت یہ مردوں یہ چھکوں کی دنیا 
نہتوں کی ہتھیار بندوں کی دنیا 
یہ ڈاکو پولس اور غنڈوں کی دنیا 
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے 

جنابوں کی عزت مآبوں کی دنیا یہ
 اچھوں کی دنیا خرابوں کی دنیا 
 یہ چمچوں کو ملتے خطابوں کی دنیا 
 یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے 
 
لطیفہ ایک چھوٹی سی حکایت کا نام ہے جس کے اثرات بہت مثبت ہوتے ہیں بقول خواجہ عبد ا لغفور " لطیفے کا یہ اعجاز ہے کہ روتوں کو ہنسا دے مردہ دلوں کو زندہ دلی عطا کرے، قنوطیت اور یاسیت کو نابود کردے، اعصابی تناؤ اور اضمحلال کو دور کردے یہ ایک شگوفہ ہوتا ہے لیکن عام فہم اور زود فہم ذرا سے میں موڈ بدل دے مزاج کو شگفتگی بخش دے"  
لطیفوں پر چھاپے مارنے کا بھی احمد علوی کا اپنا ہی انداز ہے. نہایت نپے تلے انداز میں لطیفوں کو یوں دبوچ لیتے ہیں کہ دیکھا کیجئے. ذرا دیگ کی مخبری کے لئے چاول کا یہ دانہ تو ملاحظہ کیجئے. 

یہ کہا میں نے پڑوسی سے مدد کر دیجئے 
چند مہماں آگئے ہیں چار پائی چاہیے 

چارپائی کے لئے قبلہ نے کر لی معذرت 
اپنے گھر کی محترم نے یوں بیاں کی کیفیت 

صرف دو ہی چارپائی ہیں مرے گھر میں جناب 
رات بھر جن پر رہے کرتے ہیں چاروں محو خواب 

ایک پر سوتا ہوں میں اور میرے ابا محترم 
دوسری پر میری بیوی اور مری امی بہم 

سن کے ان کی بات کو میں رہ گیا حیرت زدہ 
بیش قیمت زندگی کیوں کر رہے ہو بے مزا 

اس طرح ضائع جوانی کا نہ تم حصہ کرو 
چارپائی دو نہ دو پر ڈھنگ سے سویا کرو 

آخر میں احمد علوی کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو جس میں قریب قریب ہر مزاح نگار کا الیہ بیان کیا گیا ہے. 

مذاق خود کا ہی خود کو اڑانا ہوتا ہے 
اداس چہروں کو مشکل ہنسانا ہوتا ہے 
ہے پل صراط سے باریک راہ طنزو مزاح 
"دیا ہواؤں کے رخ پر جلانا ہوتا ہے" 

دو ماہی " ار مغان ابتسام" بچے اکتوبر 2016 تا نومبر 2016 میں شائع ہوا 


   7
1 Comments

नंदिता राय

04-Oct-2022 10:31 AM

👏👌🙏🏻

Reply